حضرت ﷺ صحابہ کے ساتھ بنونظیر کی طرف روانہ ہوئے
اس موقع پر آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم ؓ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - جنگی پرچم حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اٹھایا نبی کریم ﷺ اسلامی لشکر کے ساتھ آگے بڑھے شام کے وقت مسلمان بنونظیر کی بستی میں پہنچ گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا - ادھر یہودی اپنی حویلیوں میں بند ہوگئے اور چھتوں پر سے تیر برسانے لگے، پتھر گرانے لگے - وہ دن اسی طرح گزرا - دوسرے دن حضور اکرم ﷺ لکڑی کے ایک قبے(گنبد نما سائبان) میں قیام پذیر ہوئے، جو حضرت بلال ؓ نے بنایا تھا - یہودیوں میں سے ایک شخص کا نام غزول تھا، وہ زبردست تیرانداز تھا اس کا پھینکا ہوا تیر دور تک جاتا تھا
اس نے ایک تیر نبی کریم ﷺ کے قبے کی طرف پھینکا - تیر وہاں تک پہنچ گیا - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم ﷺ کے حکم سے قبے کو ذرا دور منتقل کردیا - رات کے وقت حضرت علی ؓ غائب ہوگئے - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حیرت ہوئی، انہوں نے آپ سے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! علی نظر نہیں آرہے؟" آپ نے فرمایا: "فکر نہ کرو، وہ ایک کام سے گئے ہیں -" کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ حضرت علی ؓ غزول کا سر اٹھائے ہوئے آگئے - اب ساری صورتحال کا پتا چلا، جب غزول نے آپ ﷺ کے سائبان کی طرف تیر پھینکا تھا، حضرت علی ؓ اسی وقت سے اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور آخر اس کا سر کاٹ لائے
اس کے ساتھ دس آدمی اور تھے، وہ غزول کو قتل ہوتے دیکھ کر بھاگ لیے تھے - نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کے ساتھ دس آدمی اور بھی روانہ فرمائے تھے - ان میں حضرت ابودجانہ ؓ بھی تھے - یہ جماعت ان لوگوں کی تلاش میں نکلی جو غزول کے مارے جانے پر بھاگ نکلے تھے - آخر اس جماعت نے انہیں جالیا اور سب کو قتل کردیا - بنونظیر کا محاصرہ جاری رہا، یہاں تک کہ چھ راتیں گزر گئیں - اس دوران منافق عبداللہ بن ابی برابر یہودیوں کو پیغامات بھیجتا رہا کہ تم اپنی حویلیوں میں ڈٹے رہو
ہم تمہاری مدد کو آرہے ہیں ، لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی مدد نہیں پہنچی - اب تو یہود کا سردار حیی بن اخطب بہت پریشان ہوا کچھ عقل مند یہودیوں نے اسے عبداللہ بن ابی کے مشورے پر عمل نہ کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن حیی بن اخطب نے ان کی بات نہیں مانی تھی - اب انہوں نے طعنے کے طور پر کہا: "عبداللہ بن ابی کی وہ مدد کہاں گئی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے؟" وہ کوئی جواب نہ دے سکا، یہودی اب بہت پریشان ہوچکے تھے، ادھر نبی اکرم ﷺ سختی سے ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، آخر اللہ تعالٰی نے یہودیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ انھیں یہاں سے نکل جانے دیا جائے وہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جائیں گے، البتہ اپنا گھریلو سامان لے جائیں گے -" نبی اکرم ﷺ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی، چنانچہ یہودیوں نے اپنے اونٹوں پر اپنی عورتوں اور بچوں کو سوار کرلیا اور اپنا سارا سامان بھی اس پر لاد لیا، یہ کل چھ سو اونٹ تھے، ان اونٹوں پر بہت سا سونا چاندی اور قیمتی سامان تھا
اس طرح بنی نظیر کے یہ یہودی جلاوطن ہوکر خیبر میں جابسے، خیبر کے یہودیوں نے انہیں وہاں آباد ہونے میں مدد دی، کچھ لوگ شام کی طرف بھی چلے گئے - غزوہ بنو نظیر کے بعد غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر ثانی اور غزوہ دومتہ الجندل پیش آئے یہ چھوٹے چھوٹے غزوات تھے جو یکے بعد دیگرے پیش آئے - پھر غزوہ بنی مصطلق پیش آیا قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا، اس نے حضور اکرم ﷺ سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار کیا، اس لشکر میں اس کی قوم کے علاوہ دوسرے عرب بھی شامل تھے - اس اطلاع پر حضور اکرم ﷺ نے بھی جنگ کی تیاری کی، اسلامی لشکر 2شعبان 5ہجری کو روانہ ہوا، ادھر جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت سے لوگ بدحواس ہوکر حارث کا ساتھ چھوڑ گئے اور ادھر ادھر بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلے پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کے مشرکوں پر حملہ کردیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ان میں سے دس فوراً مارے گئے، باقی گرفتار ہوگئے، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا
ان قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بنت حارث بھی تھیں ، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ، ثابت بن قیس ؓ کی تحویل میں آگئیں ، اب ثابت بن قیس ؓ نے برّہ سے طے کیا کہ اگر وہ نو اوقیہ سونا دےدیں تو وہ انہیں آزاد کردیں گے - یہ سن کر برّہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : "اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہوچکی ہوں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہمارے ساتھ جو ہوا، اس کو آپ جانتے ہیں ، میں قوم کے سردار کی بیٹی ہوں ایک سردار کی بیٹی اچانک باندی بنالی گئی ثابت بن قیس نے آزاد ہونے کے لیے میرے ذمہ جو سونا مقرر کیا ہے وہ میری طاقت سے کہیں زیادہ ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں -" اس پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ بتادوں ؟" برّہ بولیں : "وہ کیا اے اللہ کے رسول -" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تمہاری طرف سے سونا میں دے دیتا ہوں اور میں تم سے نکاح کرلوں -" اس پر برّہ بولیں : "اے اللہ کے رسول! میں تیار ہوں -" چنانچہ آپ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو بلایا، برّہ کو ان سے مانگا، وہ بولے: "اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! برّہ آپ کی ہوگئی -" آپ ﷺ نے انہیں اتنا سونا ادا کردیا اور برّہ سے شادی کرلی، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی، ان کا نام برّہ سے جویریہ رکھا گیا، اس طرح وہ امّ المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہوگئیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوب صورت خاتون تھیں - بعد میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث ان کا فدیہ لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس فدیے میں بہت سے اونٹ تھے، حارث ابھی راستے میں تھا کہ اس کی نظر ان میں سے دو خوب صورت اونٹوں پر پڑی، اس نے ان دونوں کو وہیں عقیق کی گھاٹی میں چھپادیا اور باقی فدیہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کرکے کہا: "یہ فدیہ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں
"اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اور وہ دو اونٹ کیا ہوئے جنھیں تم عقیق کی گھاٹی میں چھپا آئے ہو؟" حارث بن ابی ضرار یہ سنتے ہی پکار اٹھا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اس بات کا علم میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں اس سے ثابت ہوا، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں -" اس طرح وہ مسلمان ہوگئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن حارث بھی مسلمان ہوگئے، اس کے بعد بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا، کچھ سے فدیہ لیا گیا، کچھ بغیر فدیے کے چھوڑ دیے گئے - حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"بنی مصطلق پر رسول اللہ ﷺ کی چڑھائی سے تین دن پہلے میں نے خواب دیکھا کہ یثرب(مدینہ منورہ) سے چاند طلوع ہوا اور چلتے چلتے میری گود میں آرہا، پھر جب ہم قیدی بنالیے گئے تو میں نے خواب کے پورا ہونے کی آرزو کی جب آپ ﷺ نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی اس غزوہ سے فارغ ہوکے جب آپ ﷺ واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آگیا