سیرت خاتم النبیاء محمد مصطفٰی صلى الله عليه وسلم عنوان: صحابہ اور صحابیات کی فداکاری
حضرت ُاّم عمارہ رضی اللہ عنہا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیات تھی اور جن کا اصل نام نؤسیبہ تھا جب انھوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اورمشرکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں، پھر جلدی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچیں اور تلوار سے دشمنوں کے ساتھ لڑنے لگیں تلوار چلاتے چلاتے جب وہ زخمی ہوگئیں ، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چالنے لگیں جب انھوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا تو وہ کہتے ہوئے چلا آرہا تھا
مجھے بتاؤ محمد
کہاں ہیں ؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا
یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا جب وہ قریب آیا تو حضرت ُاّم عمارہ رضی اللہ عنہا اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت ُاّم عمارہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ ان کے وار سے محفوظ رہا۔ ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اللہ تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے
اس پر حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔" اس وقت حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، ُاّم عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں
سے لڑ رہی ہیں ۔
غزوہ احد میں حضرت ُاّم عمارہ رضی اللہ عنہا کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔ اس روز حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں ۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔ اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "انہیں میرے قریب لاؤ۔" ان کی
خوش قسمتی دیکھیئے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیے اور
اسی حالت میں جان دے دی کس قدر مبارک موت تھی ان کی!! اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید
ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔
چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطالع دی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے، حلانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ اسی دوران ابی بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اسے میری طرف آنے دو۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے
اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھودی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر وہ ہلکی سی خراش سے ہی وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا وہ کہہ رہا تھا
خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔" مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا: "تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا
تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے ایسی خراش پر تو ہم
اف بھی نہیں کرتے۔" اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہ
الت اور عزٰی کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں ۔" بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا: "اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں ، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔" اس کی بکواس سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے"انشاءاللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔" اب جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردی
وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبیح کیے ہوئے بیل کی طرح ذکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے
وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔
اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں "سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو
احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے
احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز کافر ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں ، یہ شخص حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا باپ تھا اور حضرت حنظلہ لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گرگئےرضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرتے دیکھا، انہوں نے آگے بڑھ کر فورًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر اٹھاکر باہر نکاال۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارا۔اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فورًا اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچالیا، میں نے فورًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اللہ تم سے راضی ہوگیا، اللہ تم سے راضی ہوگیا۔" اس حملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی زخمی ہوئے اور لوہے کی ٹوپی بھی ٹوٹی، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے خود کی دو کڑیاں آپ صلی اللہ علیہ "وسلم کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن قمیہ کو بددعا دی: "اللہ تجھے ذلیل کردے اور برباد کردے
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںاور اس طرح کے واقعات شیئر کریں شکریہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ شاندار
جواب دیںحذف کریں