قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا
یکن اگر ریل گاڑی میں قبلے کی سمت پر قادر نہ ہو تو جس طرف پر قادر ہو اسی طرف منھ کر کے نماز پڑھ لے اور کھڑا ہونے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں بیٹھ کر پڑھ لے، لیکن بلاوجہ قیام اور استقبال قبلہ کو ترک نہ کرے اور بہانہ تراشی نہ کرے، آج کل لوگ اس بات سے غافل ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے اٹکل سے قبلہ معلوم کرنے کے مسائل 1. آبادی میں پرانی مہرابوں اور مسجدوں کے ذریعہ قبلہ معلوم کرنا مقدم ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو ایسے شخص سے پوچھے جو وہاں کا رہنے والا
قبلہ کی سمت مقرر کر کے نماز پڑھنا لازمی ہے پرانی محرابوں اور مسجدوں کے ہوتے ہوئے کسی سے پوچھنے کا کوئی اعتبار نہیں اور نماز جائز نہیں ، اور پرانی محرابوں و مسجدوں کے نہ ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے موجود ہوتے ہوئے جو قبلے کا جاننے والا اور وہاں کا رہنے والا ہو اس کی گواہی قبول کی جاتی ہو اور وہ اُس کی آواز سنتا ہو، پوچھے بغیر اٹکل سے قبلے کی سمت مقرر کرنا جائز نہیں پس مقدم کی موجودگی میں موخر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے 2. اگر شرائط کے ساتھ اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھی پھر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا گمان غلط تھا تو نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر نماز کے اندر ہی معلوم ہو گیا یا رائے بدل گئی اور گمان غالب کسی دوسری طرف پر ہو گیا اگرچہ سہو کے سجدوں میں ہو تو قبلے کی طرف کو پھر جائے اور باقی نماز کو اسی طرح پوری کر لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اگر اس صورت میں فوراً اس طرف کو نہ پھرا اور ایک رکن کی مقدار دیر کی تو نماز فاسد ہو جائے گی 3. قبلہ معلوم کرنے کے جو ذرائع بیان ہوئے ان پر قادر ہوتے ہوئے اٹکل لگانا جائز نہیں ، عورت کے لئے بھی پوچھنا ضروری ہے ایسے وقت میں شرم نہ کرے بلکہ پوچھ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر ایسے جاننے والے شخص کے موجود ہوتے ہوئے اس سے پوچھے بغیر اٹکل سے نماز پڑھ لی، اگر ٹھیک قبلے کی طرف کو نماز پڑھی گئی تو نماز جائز ہو گی اور اگر ٹھیک سمت کو نہیں پڑھی تو جائز نہ ہو گی، کسی شخص کے پاس ہونے کی حد یہ ہے کہ اگر اس کو بلند آواز سے پکارے تو وہ سن لے 4. اگر کسی کو جنگل میں قبلے کا شبہ پڑ جائے اور وہ اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ سمجھے اور دو معتبر آدمی اُس کو خبر دیں کہ قبلہ اور طرف ہے
اگر وہ دونوں بھی مسافر ہیں تو ان کے کہنے پر توجہ نہ کرے اور اگر اسی جگہ کے رہنے والے ہوں یا اکثر آنے جانے کی وجہ سے یا علم کے کسی دوسرے طریقے سے ان کو قبلہ کی معرفت حاصل ہے تو ان کا کہنا مانے ورنہ نماز جائز نہ ہو گی، ہر شخص کے لئے اپنی تحری پر عمل کرنا لازمی ہے دوسرے کی تہری پر نہیں 5. اگر کسی شہر میں داخل ہو جائے اور وہاں محرابیں یا مسجدیں بنی ہوئی دیکھے تو اُنہی کی طرف نماز پڑھے اٹکل سے نہ پڑھے اور اگر جنگل میں ہے اور آسمان صاف ہے اور وہ ستاروں سے قبلے کے سمت پہنچان سکتا ہے تب بھی اٹکل سے نماز نہ پڑھے اگر اُن دونوں صورتوں میں اٹکل سے سمتِ قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھے گا اور جہت کے خلاف پڑھی گئی تو نماز نہ ہو گی اور اگر ٹھیک قبلہ کی جانب کو پڑھی گئی تو ہو گئی 6. اگر کسی مسجد میں داخل ہوا اور اُس میں محراب نہیں اور اس کو قبلہ معلوم نہیں اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی پھر ظاہر ہوا کہ غلطی ہوئی تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہے اس لئے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پوچھنے پر قادر ہے اور اگر ظاہر ہو گیا کہ اس نے ٹھیک قبلے کی طرف پڑھی ہے تو نماز درست ہے اور اگر اس نے وہاں کے رہنے والے اور سمت قبلہ جاننے والے شخص سے پوچھا اور اُس نے نہ بتایا پھر اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی تو جائز ہے اگرچہ بعد میں ظاہر ہو کہ قبلے کی سمت میں غلطی ہوئی ہے پس اگر وہ آدمی نماز کے بعد بتا دے تو اب نماز کو نہ لوٹائے اندھیری رات یا بارش وغیرہ میں نمازی کو پوچھنے کے لئے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانا واجب نہیں ہے لیکن اگر بلانے اور پوچھنے میں حرج نہ ہو تو اٹکل سے پہلے پوچھنا واجب ہے اندھیرے میں محراب قبلہ معلوم کرنے کے لئے جب کہ بآسانی پتہ نہ چل سکے دیواروں کو ٹٹولتے پھرنا بھی واجب نہیں ہے
اگر کسی کو قبلے کی سمت میں شک ہوا اور مذکورہ علامتوں سے قبلہ معلوم کرنے سے عاجز ہے اس لئے اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ مقرر کئے بغیر ہی کسی سمت کو نماز پڑھ لی پھر اگر نماز ہی میں اس کا شک زائل ہو گیا کہ وہ ٹھیک قبلے کی جانب ہے یا قبلے کی جانب نہیں ہے یا کچھ نہ معلوم ہوا تو ہر حال میں نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد غلطی معلوم ہوئی یا کچھ نہ معلوم ہوا یا گمان غالب ہوا کہ اس نے صحیح قبلے کی طرف نماز پڑھی ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی نماز جائز نہ ہو گی اس لئے نئے سرے سے پڑھے کیونکہ شبہ کی صورت میں اس پر اٹکل لگانا (تہری) فرض تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس نے صحیح قبلے کی سمت نماز پڑھی ہے تو بالاتفاق اس کی نماز جائز ہو گی اس کا اعادہ نہ کرے 8. اگر اٹکل سے ایک سمت کو قبلہ مقرر کیا لیکن نماز اس کے بجائے دوسری سمت کو پڑھی تو فتویٰ اس پر ہے کہ ہر حال میں دوبارہ نماز پڑھے ۹. اگر اٹکل سے کسی طرف کو گمان غالب نہ ہوا بلکہ اس کے نزدیک سب طرفیں قبلہ ہونے میں برابر ہوں تو اس میں تین قول ہیں بعض نے کہا کہ نماز میں تاخیر کریں یہاں تک کہ اس کے گمان میں ایک طرف قبلہ ظاہر ہو جائے ، بعض نے کہا چاروں طرف کو ایک ایک دفعہ نماز پڑھ لیں یہی زیادہ صحیح و احوط ہے ، بعض نے کہا چاروں اس کے حق میں برابر ہیں کسی ایک طرف کو اختیار کر کے اسی طرف کو نماز پڑھ لے علامہ شامی نے اسی کو ترجیع دی ہے واللہ اعلم 10. اگر اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھی پھر اس کی رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی پھر تیسری یا چوتھی رکعت میں اس کی رائے اس طرف کو بدل گئی جس طرف کو پہلی رکعت پڑھی تھی تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ وہ پہلی رکعت والی طرف کو اپنی نماز پوری کر لے یہی اوجہ ہے اگرچہ بعض نے کہا کہ نئے سرے سے پڑھے، اگر کسی شبہ کی وجہ سے اٹکل سے ایک رکعت ایک طرف کو پڑھی پھر رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور اس نے دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی اسی طرح چاروں رکعتیں چاروں طرف کو پڑھیں تو جائز ہے